کچھ دن پہلے نعیم خان نے اپنے ایک بلاگ "بانگ دے، روجی ماتے، میرا پہلا روزہ" میں رمضان کے بارے میں اپنی بچپن کی حسین یادیں تازہ کی۔ بلاگ کو پڑھتے پڑھتےمجھ پر بھی یادوں کے بہت سے جھروکےکھل گئے اور میں یادوں کی وادی میں کھوگیا۔ میں ابھی ان یادوں سے لطف اندوز ہورہاتھا، کہ نیعم خان نے مجھے بچپن میں رکھے ہوئے پہلے روزے کی روادات بیان کر نے کی دعوت دی۔ چونکہ بچپن کی کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ انسان کو اسطرح یاد ہوتی ہیں جیسے کل ہی کی بات ہو۔ اور میری ایسی بہت سی یادوں میں ایک یادمیرے بچپن کے پہلے روزے کی بھی ہے وہ رمضان بھی آج کل کے رمضان کی طرح انتہائی گرمی کے موسم میں آئے تھے۔ اور میرے گھر والے دن بھر کی پیاس اور گرمی کا زور تھوڑنے کے لئے افطاری میں مختلف مشروبات کا اہتمام کرتے تھے، گُڑ کا شربت، روح افزاء، لسی، اور ساتھ میں ٹھنڈا پانی بھی ہوتا کیونکہ چاہے کتنے بھی اقسام کی مشروبات موجود ہوپر پانی کی ضرورت اپنی جگہ رہتی ہیں۔ چونکہ ان دنوں ہمارے گھر میں فریج نہیں تھا اسلیئے میرے والد (مرحوم) دفتر سے آتے ہوئے، اپنے ساتھ بازار سے برف خرید کر لے آتھے اور اسطرح تمام مشوربات اور پانی کو ٹھنڈا کرلیا جاتا۔ ساتھ ہی ساتھ انواع و اقسام کی اشیاء بھی افطار کے لئے تیار کرلی جاتی۔ پکوڑے، چناچاٹ، فروٹ وغیرہ، پر بچوں کو افطار کے وقت سے پہلے ہی فارغ کردیا جاتا۔ اور افطارکا مزہ بڑے بزرگ خود ہی لیتے تھے، افطار کا مزہ لینے کے لئے میری بھی خواہش جاگ اٹھی اور میں نے گھر والوں سے روزہ رکھنے کا اظہار کیا ، پر یہ یاد نہیں کس سے ، ماں سے دادی سے یا پھر پھوپھو سے، اور ہوسکتا ہے کہ انہوں کہا ہو کے ابھی نہیں، پر اللہ جانے وہ کیسے مان گئے ہونگے اور میں نے پہلا روزہ رکھ لیا، اس روزے کی جو خاص بات مجھے آج بھی روز اول کی طرح یاد ہے، کہ ماں نے میری لئے چارپائی میں نیا بستر (تولائی اور چادر) بچھا دیا اور میں اس پر آرام سے لیٹ گیا اور ہاں چونکہ میرا روزہ تھا تو اس لئے مجھے باہر جانے سے اور دوڑ دھوپ سے بھی روکا گیا کہیں روزے کی حالت میں گرمی سے صحت خراب نہ ہوجائے، میں چارپائی پہ لیٹا رہا اور بار بار جھک کر لہاب دہن تھوک رہا تھے، اس خیال سے کہ اگر تھوک نگل لیا تو روزہ ٹوٹ جائیگا۔ پر دادی کے سمجانے پر کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ میں نے بار بار تھوکنا چھوڑ دیا۔ یہی ایک بات جو مجھے آج تک یاد ہے،اسطرح وقتاَ فوقتاَ میں خواہشی روزے رکھتا گیا ، شروع شروع میں جمعے کے جمعے روزہ رکھنا اور پھر آہستہ آہستہ جس دن گرمی کم ہوتی اس دن کا روزہ بھی رکھنا،
جب میں روزے رکنا شروع کئے تو میرے اسکول کے دوست روزے نہیں رکتھے تھے، اس وقت میں آتھویں کلاس کا طالب علم تھا، تو میں نے گھر میں کہا کہ میرے دوست تو روزہ نہیں رکھتے اور آپ مجھ سے روزہ رکھواتے ہیں۔ پر گھر والوں کے سمجھانے پر کہ اب تم بڑے ہوگئے ہو، اور بغیر کسی وجہ کے روزہ چھوڑنا گنا ہ ہوتا ہے، ایک دن اسکول میں میری طبیعت خراب ہوگئی اور مجھے قے ہوگئی جس پر مجھے استاد محترم نے کہا کے تھمارا روزہ ٹھوٹ گیا اس لئے اب تو کچھ کھا لو تاکہ طبیعت سنبھل جائے، اور مجھے گھر بھی بجھوا دیا ۔ بس پھر کیا ہر دوسرے روز قے ہو جاتی ۔ :p
جوں جوں عمر بڑھتی گئی بچپن میں رکھے ہوئےخواہشی روزوں کی جگہ اب فرضی روزوں نے جگہ لینی شروع کردی اور نوجوانی کے روزوں کا بھی اپنا مزا ہوتا ہے،روزے کی حالت میں کھیلنا، دوستوں کے ساتھ مستیاں کرنا، نماز تراویح میں لڑکوں کا مستیاں کرنا، دوران سجدہ ایک دوسرے کی ٹانگے کھینچنا، بیٹھ کے گپے مارنااورجب مولوی صاحب سلام پھرتے تو جلدی سے نماز کی حالت میں ہوجاناوغیرہ وغیرہ، یہ حرکتیں آج بھی بچے کرتے ہیں ، پر آج مجھے اور مجھ جیسے اور لوگوں کو یہ حرکتیں ناگوار گزرتی ہیں کیو نکہ اسطرح کی حرکتیں عبادت میں خلل ڈھالتی ہیں۔ پر یہ بات کل تک ہم نہیں سمجتھے تھے اور آج، آجکل کے بچے ، کل تک ہمارے بزروگوں کو ناگوار گزرتی تھی اور آج ہمیں۔ بہر کیف ایک خواہش آج ایک عبادت بن چکی ہے، ایک ایسی عبادت جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تمام اقسام کی نعمتوں، رحمتوں سے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اس عبادت کو صیح معنوں میں ادا کرنے کی توفیق عطاء کرے ۔۔۔۔ آمین
بہت مزے کی تحریر لکھی ہے آپ نے خاص کر قے والی بات تو بہت اچھی لگی، لو جی قے ہوئی نہیں اور روزے کی چھٹی۔ واقعی پچپن میں جس عبادت کی خواہش کرتے تھے اب بہت سارے لوگ اس سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ عبادت نعمتوں برکتوں بھری ہے ، نفس کی پاکیزگی کا مہینہ اور صبر و اطاعت کا بھی۔
ReplyDelete