آپ نے اکثر ہوٹلز کے باہر یہ بورڈ ضرور دیکھا ہوگا ۔ جس پر موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوتا ہے " گھر جیسا ماحول" ۔۔۔۔ شائید ان کو معلوم نہیں، کہ تقریباَ 80 ٪ پاکستانی یہ دیکھ کے گبھرا جاتے ہیں، یا آللہ یہاں بھی وہی گھر کے مسائل،" ارے سنتے ہیں، آٹا ختم ہوگیا ہے، بجلی کا بل بھی ابھی ادا نہیں ہوا اور ہاں منے کی اسکول کی فیس" یہ آوازیں کانوں میں گھونجنے لگتی ہیں، اور بندہ گبھرا کر کسی اور طرف کسک جاتا ہے، او ہو! بات کہاں سے کہاں نکل گئی ۔ خیر مجھے اپنے ایک ذاتی کام کی وجہ سے دبئی- متحدہ عرب امارات میں واقع پاکستانی قونصل خانے جانا پڑگیا۔ چونکے مجھے قونصل خانے کی مقام کا اندازہ نہیں تھا اس لئے اپنے دوست کے بتانے پرمیں اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے لئے میٹرودبئی کے ذریعے برجمان پہنچ گیا۔جہاں پر پر یہ قونصل خانہ واقع ہے۔ میڑو اسٹیشن سے نکلنے کے بعد میں پاکستانی قونصل خانہ ڈھونڈنے لگا ۔ چونکہ میں اس علاقے سے واقف نہیں تھا اس لئےتلاش بسیار پر بھی مجھے نہ مل سکا, آخر کار لوگوں سے پوچھ گچھ کے بعد مجھے ایک عمارت پر سبز ہلالی پرچم لہراتا ہوا نظر آیا، اور یقین جانئے دل ایسے خوش ہوا جیسےویرانے میں بہار آجائے۔ داخلی دروازے پر قدم رکھتے ہوئے ایسا احساس ہو جیسے میں نے اپنے گھر میں قدم رکھا ہو، پچھلے چند عرصے میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ مجھے دلی خوشی ملی تھی۔ گیٹ پر کھڑے ایک شخص اس اپنا مدعا بیان کیا۔ تو اس نے کہا کے پہلی منزل پر چلے جائو۔ جیسے ہی میٰ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر کی منزل پر پہنچا، تو ایک شاندار بد بو نے میرا اسیقبال کیا، اور لوگوں کا ایک بے ہنگم ہجوم جو اپنی ایک دوسرے سے اگے ہونے کے لئے زور لگا رہے تھے۔ ااور کچھ جو میری طرح کے تھے خاموشی سے ایک سائیڈ پر کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، خیر میں ایک کاونٹر پر گیا اور اس کو اپنا مسلئہ بیان کیا ۔ اس صاحب نے مجھے دوسرے کاونٹر پر بیھج دیا۔ اور میں بھی اس قطار کا حصی بن گیا، جو اپنے جگہ سے ہلنے کا نام نہیں لئے رہی تھی، وجہ میں بتا چکا ہوں۔ ایک تو نہ ہلنی والی لمبی قطار، اوپر سے گرمی کا عالم مجھ سمت وہاں موجود سب لوگوں کے پسینے چھوٹ رہے تھے، اور پسینےاوروہاں موجود کچھ گندگی اس کمرے کی فضاء کو معطر کرہی تھی۔ شائیدہی امارات میں کوئی ایسا دفتر ہوگا، جہاں جا کر آپ کو گرمی کا احساس ہو، لیکن پاکستانی قونصل خانہ امارات کا واحد دفتر ہے جہاں داخل ہو کرآپ کو نہیں لگے گا کہ آپ امارات میں واقع کسی عمارت میں ہیں۔ میرے عقب میں کھڑا ایک ملتانی شخص حکومت وقت کو اپنے شاندار الفاظ سے نواز رہتا تھا۔ اور ان کی شرافت کی عزت افزائی کر ہا تھا۔ کہ ایسے میں ایک سوٹ بوٹ والا شخص جو دیکنھے میں کافی تعلیم یافتہ نظر آرہا تھا، آگے ہونے کی کوشش کر ہا تھا۔ جس پر میرے عقب میں کھڑے صاحب نے ان کو قطار میں لگنے کی استدعا کی، جو اس کو نا گوار گزری،نہ چاہتے ہوئے بھی وہ قطار میں لگ گیا، اور اپنی تعلیمی قابیلیت الفاظ میں جتانےلگا، اس پرکچھ صاحباں کے ساتھ اس کی لفاظی سرد جنگ بھی ہوئی،اس پر ایک منچلے نے یہ کہہ کر اور بھی تپا دیا، کے ہم نے آپ کو قطار میں لگوا کر تبدیلی کا آغاز کردیا۔ اس پر ان دونوں پیں زبردست الفاظ کا تبادلہ ہوا،لگ رہا تھا پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے ہو گئے ہیں، شائد یہ وہاں پر گرم موسم کا اثرتھا یا پھر پاکستانی خون کا جو ہر وقت گرم رہتا ہے۔ یہ بحث چل رہی تھی کہ میرا دھان وہاں عوام کی صحولت کے لئے رکھے ہوئے فوٹو کاپیئر پر گیا جس پر ایک کاپی کا ایک درہم لیا جا رہا تھا۔ جس پر مجھے کافی حیرانی ہوئی ، کہ یہ کس بات کے درہم لے رہاہے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ مشین حکومت کی طرف سے نہیں رکھا گیا، بلکہ اس صاحب کی ذاتی ملکیت ہے گویا وہ اپنی سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ اپنی فوٹو کاپی کی دکان بھی چلارہا تھا،عین سرکاری ناکوں کے نیچے،دل تو بہت چا رہا تھا کہ یہ تمام مناظراپنے موبائل میں قید کرلوں اور آپ کو دکھا سکوں پر یہ ممکن نہیں تھا۔ تقریباَ 2 گھنٹے کے انتظار کے بعد میں اس کمرے میں داخل ہو گیا۔ وہاں پر موجود آفیسر نے نہایت ہی خوش اسلوبی سے مجھے تمام طریقہ کار سمجھا دیا ، گو کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں موجود عملے کا رویہ نہایت مخلصانہ تھا۔ پر وہاں کے اردگرد کے ماحول اور ہم لوگوں کی بے صبری کو دیکھ کے یہ نہیں لگتا تھا کہ یہ دفتر متحدہ عرب امارات میں واقع ہے۔ بلکہ یہ ماحول اپنا اپنا سا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم لوگ کبھی بھی اپنی عادتیں نہیں بدل پائیں گے. البتہ آپ کی چلبلی تحریر بہت مزے کی لگی.
ReplyDeleteار یہ دیکھ بہت افسوس ہوتا ہے، کہ یہی لوگ جب کسی فارن آفس میں جاتے ہیں ، یقین جانو ایسے مذب نظر آتےہیں، کہ دنیا سوچنے پہ مجبور ہو جائے کہ، نظم و ضبط اگر سیکھنا ہے تو پاکستانیوں سےسیکھو، ۔ االلہ جانے اپنے لوگوں میں جا کے ان کو کیا بلا پڑ جاتی ہے۔ بہت کچھ تو میں نے لکھا بھی نہیں
Deleteاللہ ہمارے حال پر رحم کرے
آمین